جب کسی تمتماتے ہوئے جسم کا سرسراتا ہوا پیرہن
رس بھرے سنترے کے چمکدار چھلکے کی مانند اترنے لگے گا
دھندلکے میں سوئے ہوئے نرم بستر کی نیندیں
کسی سوندھی خوشبو کی جھنکار سے جب اچٹ جائیں گی
اور الجھی ہوئی گرم سانسوں کی موجوں پہ میں
بے سہارا بھٹکتی ہوئی ناؤ کی طرح بہنے لگوں گا
یقین ہے مجھے
تم ہواؤں کی پوشاک پہنے ہوئے
بند کمرے کی جنت میں در آؤگی
اجنبی مسکراتے ہوئے جسم کے ایک ایک نقش میں
آپ ہی آپ ڈھل جاؤ گی
دور افق کے قریں
دو پرندے فضاؤں میں آہستہ آہستہ تحلیل ہو جائیں گے
نظم
وصال
بشر نواز