شہر کی گلیاں گھوم رہی ہیں میرے قدم کے ساتھ
ایسے سفر میں اتنی تھکن میں کیسے کٹے گی رات
خواب میں جیسے گھر سے نکل کے گھوم رہا ہو کوئی
رات میں اکثر یوں بھی پھری ہے تیرے لیے اک ذات
چند بگولے خشک زمیں پر اور ہوائیں تیز
اس صحرا میں کیسی بہاریں کیسی بھری برسات
دھوم مچائیں بستی بستی سوچ رہے تھے آپ
دیکھا کن کن ویرانوں میں لے کے گئے حالات
دن میں قیامت غم خواروں کی رات میں یاد یار
چند نفس کی مہلت میں بھی اتنے کٹھن دن رات
نظم
ویرانی
قمر جمیل