مرے اندر
گھنا جنگل
گھنے انجان جنگل میں
لچک شاخوں کی وحشت میں
شجر کے پتے پتے پر
منقش ان گنت صدیاں
زمانوں کے بدن عریاں
ازل کی زد، ابد کی حد
کھنڈر، مینار اور گنبد
رواں لا سمت تہذیبیں
نئے امکان کی سانسیں،
کبھی اپنی گرفتوں میں
گرفتوں سے کبھی باہر
لہو، آفاق، اک دریا
بدن لمحات کا صحرا
جہاں دنیا بھٹکتی تھی
وہ سب خاموش اور تنہا
اسی صحرا کے سناٹے کو نغموں سے بھگونا ہے
کہیں دور جا کر
خود کو خود ہی میں ڈبونا ہے
کسی دن اپنے جنگل سے لپٹ کے کھل کے رونا ہے

نظم
ویران خواہش
ریاض لطیف