EN हिंदी
وینس | شیح شیری
wenus

نظم

وینس

ریاض لطیف

;

پہنا کے زنجیر آبی بنا تاب کی
اب بھی جکڑے رکھا ہے مجھے پانیوں نے

نفس میرا پانی مری روح پانی
مرے عکس کی لہر در لہر سطحوں میں سیال پتوار کھولے ہیں در اور دریچوں کی تاریخ کے

مرتعش مرتعش اپنی پھیلی رگوں کی فراوانیوں میں
بہاتا ہوں میں نغمہ زن کشتیوں کے چراغ

آسمانوں کا آئینہ سر پہ لیے
پھڑپھڑاتے کبوتر کی دس لاکھ حیرت بھری سرخ آنکھوں میں چکرا کے گرتے ہوئے

سب کلیسا محل اور قندق کے سبز اور آلودہ محراب و گنبد پانی
عیاں میرے سینے کی سیال پہنائیوں میں

صحن تا صحن فاختاؤں کے شہپر
تمدن کے تیور

ہوا کے ستوں درستوں سارے سیاح پیکر
گھلے ہیں زمانوں سے پانی کی گلیوں میں تاجر جہازوں کے زرخیز پھیرے

مگر ساری آرائشوں میں سما کر
سرابوں کی موجوں کے غیبی تھپیڑوں نے پل پل نکھارا ہے بوسیدہ چہرے کو میرے

تو اپنے ہی نم اور خوابیدہ سایوں سے افسانے کہتے ہوئے اب
مسلسل روانی کے کاندھوں پہ رہتے ہوئے اب

تغیر کا طوفاں اٹھاؤں تو کیا ہو
تری آنکھ میں ڈوب جاؤں تو کیا ہو