EN हिंदी
وصل کی جو خواہش ہے | شیح شیری
wasl ki jo KHwahish hai

نظم

وصل کی جو خواہش ہے

اسریٰ رضوی

;

یہ بہت رلاتی ہے رات بھر جگاتی ہے
چین لینے دیتی ہے اور نہ رونے دیتی ہے

یوں تو ایک مدت سے
تم سے ہم ہیں بیگانہ

ساتھ چلتے رہنے کا نہ تو کوئی وعدہ ہے
پھر بھی دل میں جانے کیوں اک خلش سی رہتی ہے

دل میں یہ خیال اکثر آ کے ٹھہر جاتا ہے
ساتھ ساتھ چلتے ہم زندگی کے رستوں پر

ہر سفر ہنسی ہوتا تم جو میرے ساتھ ہوتے
لیکن اے مرے رہبر

اب تو خوف اس کا ہے خواب میں جو آئے تم
اور بے خیالی میں نام جو لیا ہم نے

سب ہی چونک جائیں گے مستقل سوالوں سے
لا جواب کر دیں گے

اس لیے میرے جانا
وصل کی جو خواہش ہے

اس کو بھول جاتی ہوں
اور تمہاری یادوں سے

اب وداع لیتی ہوں