EN हिंदी
وصیت | شیح شیری
wasiyyat

نظم

وصیت

مظفر حنفی

;

گڈو بیٹے! روتے کیوں ہو؟
قصہ سننے کی خواہش ہے؟

اچھا اپنے آنسو پونچھو
لو ہم اک قصہ کہتے ہیں!

اکسٹھ سال گزرتے ہیں
افغانوں کی اک بستی میں لڈنؔ خاں نے جنم لیا تھا

داروغہ کے بیٹے تھے وہ نانا ان کے مولانا تھے
کھاتا پیتا گھر تھا ان کا

لڈنؔ خاں اچھے بچے تھے (بالکل ویسے جیسے تم ہو)
ان کے گھر والے بھی ان سے اتنی ہی الفت کرتے تھے جتنی ہم تم سے کرتے ہیں

جب وہ تھوڑے بڑے ہوئے تو
نانا ان کو مکتب میں داخل کر آئے

لڈنؔ خاں نے پڑھنا سیکھا
لکھنا سیکھا، لڑنا سیکھا (آخر وہ افغانی بھی تھے)

چودہ پندرہ برسوں ہی میں لڈنؔ خاں کو یہ بے فکری راس نہ آئی
نانا اور ابو دونوں نے لڈن خاں سے کٹی کر لی

(مرنا جینا تم کیا سمجھو)
تب مجبوراً

لڈنؔ خاں نے پڑھنا چھوڑا
اپنے گھر سے ناطہ جوڑا

ٹیوشن کرتے لشتم پشتم اپنے گھر کا خرچ چلاتے
ان کی اماں کو راجہ سے تھوڑی سی پنشن ملتی تھی، کام کسی صورت چل جاتا

ماں نے ان کی شادی کر دی
لیکن بیوی خوش قسمت تھی جس نے جلد ہی کٹی کر لی

گڈو بیٹے
ہونی ہو کر ہی رہتی ہے

مکتب میں رہ کر لڈنؔ خاں غزلیں کہنا سیکھ چکے تھے
افغانی ہونے کے ناطے لوگوں سے ڈرتے بھی کم تھے

اپنی غزلوں میں نظموں میں تیکھی تیکھی باتیں کہتے، لوگوں پر پھبتی کستے تھے
(اپنے ہوں یا غیر سبھی پر)

سچ کہنے، سچ لکھنے میں باک نہ کرتے (یہ تو ایک نشہ ہوتا ہے)
بس پھر کیا تھا اپنے غیر سبھی ان کے دشمن بن بیٹھے

ٹیوشن چھوٹی، دے مینی کی دے مینی سے منشی گیری
در در بھٹکے باز نہ آئے

کڑوی تیکھی غزلیں نظمیں کہہ کہہ کر انبار لگایا
اتنے سے بھی چل سکتا تھا

لیکن وہ تو راجہ جی پر پھبتی کس کر امی کی پنشن لے ڈوبے
(بوبو ان کی کیا اٹکی تھی۔ راجہ جو کچھ بھی کرتا تھا، لڈن خاں سے کیا مطلب تھا؟)

امی بے چاری اس غم میں کڑھ کڑھ کر پردیس سدھاریں (یوں سمجھو بس روٹھ گئیں وہ لڈنؔ خاں سے)
لیکن بیٹا! مرنے میں پیسے لگتے ہیں لڈنؔ خاں نے گھر بھی بیچا

آگے پیچھے کوئی نہیں تھا اب تو لڈنؔ خاں کھل کھیلے
سچی سچی باتیں کہہ کر کڑوی تیکھی غزلیں لکھ کر زہر آلودہ نظمیں پڑھ کر

ایک سرے سے سب لوگوں کو دشمن در دشمن کر بیٹھے
ساری دنیا دشمن ہو تو لڈنؔ خاں بچتے بھی کیسے

سب نے مل کر گھیرا ڈالا
آگے دشمن پیچھے دشمن بائیں دشمن اوپر دشمن نیچے دشمن

لڈنؔ خاں میں عقل نہیں تھی، اپنی نظمیں ساری چیزیں چھوڑ چھاڑ کر
چپکے سے مر جانے ہی کو بہتر جانا!

گڈو میرے پیارے بیٹے!
میرے راج دلارے بیٹے!

دیکھو تم غزلیں مت کہنا!
بیٹے تم نظمیں مت لکھنا!

لکھنا ہی پڑ جائے تو پھر سچ مت لکھنا!
دیکھو بیٹا!

سچ مت لکھنا!!
سچ مت لکھنا!!!