EN हिंदी
ورود | شیح شیری
warud

نظم

ورود

خالد کرار

;

جواں راتوں میں کالا دشت
قالب میں اترتا ہے

کہ میرے جسم و جاں کے مرغزاروں کی مہک
ہوا کے دوش پر رقص کرتی ہے

پیاسی ریت صحراؤں کی دھنستی ہے
رگ و پے میں

ادھڑتے ہیں مساموں سے
لہو زاروں کے چشمے

برف کوہسار کے سارے پرندے
گیت گاتے ہیں

حباب اٹھتا ہے
گہرے نیلگوں زندہ سمندر کا

ہمالہ سانس میں ڈھل کر
گلیشئر سا پگھلتا ہے

جواں راتیں
ریگزاروں کی پیاسی ریت

سمندر کا حباب
برف کوہسار کے سارے پرندے

ہمالہ اور گلیشئر
جواں راتوں میں

میری کائناتوں میں
نئے سیارے اور تازہ جہاں دریافت کرتے ہیں

کہ مجھ پر لفظ بارش سے اترتے ہیں