EN हिंदी
وقت کو کس نے روکا ہے | شیح شیری
waqt ko kis ne roka hai

نظم

وقت کو کس نے روکا ہے

مصحف اقبال توصیفی

;

تجھ سے جانے کتنی باتیں کرنی تھیں
تیرے بالوں کی اک لٹ کو

تیرے ہونٹوں پر سے اپنے ہونٹوں تک لانا تھا
تیرے سرہانے ان دیکھے خوابوں کی قطاریں

تیری آنکھوں کے ساگر میں نیندوں کی کشتی
میں تیرا مانجھی

کتنے دیپوں کا یہ سفر جو نیا انوکھا، انجانا تھا
لیکن صبح کی کرنوں کے طوفاں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا

وقت کو کس نے روکا، وقت کو آخر جانا تھا!!