تجھ سے جانے کتنی باتیں کرنی تھیں
تیرے بالوں کی اک لٹ کو
تیرے ہونٹوں پر سے اپنے ہونٹوں تک لانا تھا
تیرے سرہانے ان دیکھے خوابوں کی قطاریں
تیری آنکھوں کے ساگر میں نیندوں کی کشتی
میں تیرا مانجھی
کتنے دیپوں کا یہ سفر جو نیا انوکھا، انجانا تھا
لیکن صبح کی کرنوں کے طوفاں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا
وقت کو کس نے روکا، وقت کو آخر جانا تھا!!
نظم
وقت کو کس نے روکا ہے
مصحف اقبال توصیفی