وقت کی ریت پہ سورج نے لہو تھوکا پھر
ساعتیں کوڑا کے داغوں میں نہا کر نکلیں
مچھلیاں لمس کے ہاتھوں میں گھڑی بھر نہ رکیں
ہڈیاں خواب کے کتوں نے چبائیں شب بھر
ہجرتیں اپنے مقدر میں لہو چہرہ ہیں
کون خمیازہ بھگتنے کی سلاخیں چاٹے
کون زنجیر کے حلقوں میں سمندر باندھے
کون لفظوں کے مزاروں پہ نئے پھول رکھے
کون سایوں کو تلاشے یہاں قندیل لیے
ابرہہ کعبہ کی دیوار کے سائے میں جلے
کانچ کی چوڑیاں بجتی ہیں لہو کی تہہ میں
نظم
وقت کی ریت پہ
عادل منصوری