EN हिंदी
وقت کی ریل گاڑی | شیح شیری
waqt ki rail gaDi

نظم

وقت کی ریل گاڑی

مصحف اقبال توصیفی

;

میں تجھے ڈھونڈنے نکلا گھر سے
اور اپنا ہی پتہ بھول گیا

اب نہ وہ تو ہے نہ میں
نہ وہ راستہ ہے نہ پیڑ

نہ وہ مندر ہے
نہ کٹیا

نہ چراغ
اب نہ وہ تو ہے نہ میں

اور وہ لوگ کہاں کیسے ہیں
میں جنہیں بھول کے خوش ہوں

جو مجھے یاد بھی آئیں
کیسی دیوار ہے یہ نیم فراموشی کی

آؤ دیوار گرائیں
اور اگر یہ نہ گرے

آؤ ڈھونڈھیں
یہیں ہوں گے کہیں ریما جوزف۔۔۔

میں ترے کرتے کا دامن تھاموں
آؤ ہم ریل بنائیں

آؤ ہم ریل کو پیچھے لے جائیں