وقت کی پیٹھ پر
کچے لمحوں کے دھاگوں میں لپٹا ہوا
شہر کی سیڑھیوں پر سرکتا ہوا
نت نئے
خودکشی کے طریقوں کا موجد بنا
حبشی راتوں کے جنگل میں بکھری ہوئی
لمس کی ہڈیاں
چن رہا ہوں نہ جانے میں کس کے لیے
جب مرے نام کے لفظ تنہا تھے لوگو
تمہیں سرخ ہونٹوں کی خیرات
کیسے ملی یہ بتاؤ
ریفریجیٹر میں رکھی ہوئی طشتری میں
مری دونوں آنکھیں برہنہ پڑی تھیں
وہاں تک کسی خواب کے ہاتھ پہنچے نہیں
کبوتر کی آنکھوں میں
ٹوٹے ہوئے آسمانوں کا تنزل نہ دیکھو
بدن کے شکستہ کھنڈر سے نکل بھاگنے کے لیے پھر
تمہاری مدد کی ضرورت ہے مجھ کو
نظم
وقت کی پیٹھ پر
عادل منصوری