EN हिंदी
وقت کے کٹہرے میں | شیح شیری
waqt ke kaTahre mein

نظم

وقت کے کٹہرے میں

بشر نواز

;

سنو تمہارا جرم تمہاری کمزوری ہے
اپنے جرم پہ

رنگ برنگے لفظوں کی بے جان ردائیں مت ڈالو
سنو تمہارے خواب تمہارا جرم نہیں ہیں

تم خوابوں کی تعبیر سے ڈر کر
لفظوں کی تاریک گپھا میں چھپ رہنے کے مجرم ہو

تم نے ہواؤں کے زینے پر
پاؤں رکھ کر

قوس قزح کے رنگ سمیٹے
اور خلاؤں میں اڑتے

فرضی تاروں سیاروں کی باتیں کیں
تم مجرم ہو اس ننھی کونپل کے جس نے

صبح کی پہلی شوخ کرن سے سرگوشی کی
تم مجرم ہو اس آنگن کے جس میں شاید

اب بھی تمہارے بچپن کی معصوم شرارت زندہ ہے
تم مجرم ہو تم نے اپنے پاؤں سے لپٹی مٹی کو

ایک اضافی چیز سمجھ کر جھاڑ دیا