سہمی سہمی کھوئی کھوئی دشت کی دو ہرنیاں
یاد آتی ہیں مجھے وہ زخم خوردہ لڑکیاں
ان کے چہرے جگمگاتے تھے خزاں کی دھوپ سے
درد کی بارش ہو جیسے روپ کے بہروپ سے
ان کا دل محرومیوں کا ایک گہرا غم لیے
اور آنکھیں جس طرح ہوں جلتے بجھتے سے دیے
آتے جاتے دیکھتا تھا روز ان کو راہ میں
جیسے پاگل ہو چلا تھا میں بھی ان کی چاہ میں
پھر نہ جانے کیا ہوا کس لہر میں وہ کھو گئیں
کوئی ان کا ہو گیا یا وہ کسی کی ہو گئیں
نظم
وقت
علیم درانی