اے دکن کی سر زمیں اے قبلۂ ہندوستاں
تیرے ذرے مہر ہیں تیری زمیں ہے آسماں
عظمت ماضی کا دل افروز نظارہ ہے تو
مشرق تہذیب کا پاکیزہ گہوارہ ہے تو
تیرے ہر پہلو میں ہیں احساس کی بیداریاں
تیرے ہر منظر میں ہیں جذبات کی سرشاریاں
ہے خزاں نا آشنا تیرے گلستاں کی بہار
تجھ پہ ہے سایہ فگن دامان لطف کردگار
تیرے دریائے کرم کا جوش گوہر بیز ہے
تیری زر افشاں زمیں کا فیض مردم خیز ہے
جو جواہر تو نے چمکائے ہیں اپنی خاک سے
ان کا سینہ بھر دیا ہے جلوۂ ادراک سے
وہ ولیؔ تیرا ہی اک فرزند ہے خاک وطن
جس کی عظمت نے کیا دہلی میں آغاز سخن
روح میں جس نے بھری اردو کے بے جاں جام میں
کیف احساس عمل ہے جس کے ہر پیغام میں
اک حیات نو عطا کی جس نے موجودات کو
جس نے دی اک روح تازہ قلب احساسات کو
اس فضائے آب و گل کو نور جس نے کر دیا
ذرہ ذرہ کو جو اب طور جس نے کر دیا
سوز کی رنگینیاں برسائیں جس نے ساز سے
جگمگا اٹھے ستارے جس کی ہر پرواز سے
جس کی فیاضی سے ہر قطرہ سمندر ہو گیا
جس کے نقش پا سے ہر ذرہ منور ہو گیا
جو نہیں ہم میں مگر ہم یاد کرتے ہیں جسے
دل کے شعرستان میں آباد کرنے لوں جسے
مخلصانہ یاد میں جس کی ہے اپنا نام بھی
یاد ماضی میں ہے مستقبل کا اک پیغام بھی
نظم
ولیؔ
میکش اکبرآبادی