EN हिंदी
وحشت | شیح شیری
wahshat

نظم

وحشت

عنبرین صلاح الدین

;

مجھے وحشت کا مطلب کب پتہ تھا آج سے پہلے
کبھی ایسا ہوا یہ دل ذرا گھبرا گیا

تو کہہ دیا کہ دل بہت وحشت زدہ ہے
اور ایسا بھی ہوا

گر سخت لہجے میں کسی نے بات کی
یا بات رد کر دی

نہ کوئی کام ہو یا نہ نیند آئی
تو پھر بھی کہہ دیا وحشت بہت ہے

مجھے یہ لفظ اچھا ہی بہت لگتا تھا
پر ایسے نہیں دیکھو

کہ میں نے اس کا مطلب آج سمجھا ہے
میں گم صم تو نہیں چپ ہوں

مری ساری توجہ میرے ہاتھوں پر لگی ہے
میرے ناخن یوں ہتھیلی میں کھبے ہیں

دل یہ کہتا ہے
کہ میری انگلیاں اس جلد کے نیچے دبے

اک اضطرابی سے خلا کو پر کریں
یا پھاڑ ڈالیں اب

کئی لہریں سی بے چینی سے یوں کروٹ بدلتی ہیں
مرا دل چاہتا ہے یہ

کہ میں کھینچ کر
عجب وحشت کے مقناطیس سے جڑ کر

خود اپنے کانپتے ہاتھوں کی پوروں سے نکل جاؤں
مگر میں اپنے سینے سے ابھر کر

آ اٹکتی ہوں حلق میں
خشک ہے جو پیاس سے

ان آنسوؤں سے
جو نہیں بنتے

یہاں میں کہاں جاؤں
نہ آگے آ سکوں میں اور نہ واپس جا سکوں میں اب

میں جیسے بند ہوں شیشے کے ڈبے میں
میں اپنے خواب سے اپنے حلق سے

جس قدر کوشش کروں
باہر نکلنے کی ابھرنے کی

تو میرا سانس رکتا ہے
کوئی آواز آتی ہے

کہیں اندر ہی لیکن ڈوب جاتی ہے
مجھے سب کہیں پر بھی نہیں ہوتی

کسی کو میں نظر آتی ہوں پر شاید
اسے بھی اپنے اندر سے نکلنے کا کوئی رستہ نہیں ملتا