میرے گھر کے ہر کمرے میں
ایک ہی چہرہ جھانک رہا ہے
دیواروں پر عکس ہے اس کا
دروازوں پر لمس ہے اس کا
ہر آہٹ میں اس کی آہٹ
ہر لمحے موجود ہے لیکن
پھر بھی تیقن سوچ رہا ہے
کون ہے میرے وہم کے گھر میں
کون اندھیرے کھول رہا ہے، کون خموشی بول رہا ہے
کس نے میرے درد کے دل کو
ہاتھ کا مرہم بخش دیا ہے
کس نے میری تنہائی میں
اپنا چہرہ چھوڑ دیا ہے
نظم
وہم یقین
خالد ملک ساحلؔ