مصلحت ایک سہیلی میری
اس نے تمہاری سوچ پہ پابندی عائد کی تھی
میں نے اس کا دل رکھنے کو حامی بھر لی تھی
لیکن مجھے اکیلا پا کر
کل اک ننھا منا بھید بھرا لمحہ
کلکاری بھرتا آیا
اس نے جس کی انگلی تھام رکھی تھی
وہ تو تم تھے
آنکھوں میں شامیں اتری تھیں
گھنی گھنی پلکوں کے پیچھے اک نارنجی شکوہ ڈوب رہا تھا
کیا میں اک پل کو بھی سوچے جانے لائق نہیں رہا ہوں
چپ کی لمبی یخ دیواروں کو چھوکر
تم لوٹ گئے ہو
لیکن اپنا چنچل ساتھی پیچھے چھوڑ گئے ہو
اور وہ میرے چار سو پھیرے کھیل کھیل کر
میرا آنچل تھامے تھامے جانے کیا کیا پوچھ پوچھ کر تھک ہی گیا ہے
میرے کندھے لگ کر خوابوں کے جھولے میں جھول رہا ہے
اس کے جاگنے سے پہلے
تم اس کو لینے آ جاؤ
نظم
واپسی
ناہید قاسمی