زمیں کا حسن سبزہ ہے
مگر اب سبز پتے زرد ہو کر جھڑتے جاتے ہیں
بہاریں دیر سے آتی ہیں
جگنو ہے نہ تتلی ۔۔۔خوشبوؤں سے رنگ روٹھے ہیں
جہاں جنگل ہوا کرتے تھے اور بارش دھنک لے کر اترتی تھی
جہاں برسات میں کوئل، پپیہے چہچہاتے تھے
وہاں اب خاک اڑتی ہے
درختوں کی کمی سے آ گئی ہے دھوپ میں شدت
فضا کا مہرباں ہالہ پگھلتا جا رہا ہے
آسماں تانبے میں ڈھلتا جا رہا ہے
اس لیے بے مہر موسم اب ستاتے ہیں
دھوئیں کے، گرد کے، آلودگی کے، شور کے موسم
گلی، کوچوں، گھروں میں کارخانوں میں بس اب
سڑک پر شور بہتا ہے
سنائی ہی نہیں دیتا ہمارا دل جو کہتا ہے
محبت کا پرندہ آج کل خاموش رہتا ہے
پرندے پیاس میں ڈوبے ہیں اور پانی نہیں پیتے
کہ دریاؤں کی شریانوں میں اب شفاف پانی کی جگہ آلودگی کا زہر ہے
ہمیں جب بحر و بر کی حکمرانی دی گئی ہے تو یہ ہم کو سوچنا ہوگا
زمینوں، پانیوں، ماحول کی بیماریوں کا کوئی مداوا ہے
کہیں ان کا سبب ہم تو نہیں بنتے؟
سبب کوئی بھی ہو آخر مداوا کچھ تو کرنا ہے
یہ تصویر جہاں ہے رنگ اس میں ہم کو بھرنا ہے
نظم
اونچے درجے کا سیلاب
غلام محمد قاصر