EN हिंदी
اس سے کہہ دو | شیح شیری
us se kah do

نظم

اس سے کہہ دو

محمد انور خالد

;

اس سے کہہ دو کہ وہ اپنے دکھتے ہوئے بازوؤں کو یوں ہی تہ رکھے
راہداری کے پرلے سرے پر وہ کس سے ملے گی

کوئی خواب راتوں کی بوجھل ہوا میں کسی پر سمیٹے پرندے کا خواب
کوئی خواب بیمار بستر پہ بجھتے سمے

رات کے نرم پاؤں گزرنے کا خواب
بند کمرے میں دوپہر بھر صرف اک زیر جامہ میں سونے کا خواب

یا کوئی آنگنوں میں اترتی ہوئی آنکھ کی کونپلوں سے الجھتی ہوئی دھوپ
بھک سے اڑ جانے والی سرنگوں کی مانند بچھتی ہوئی دھوپ

منہ اندھیرے یہ دانتوں تلے کرکراتی ہوئی دھوپ
اس سے کہہ دو کہیں بھی کوئی خواب ہو دھوپ ہو

نصف شب اپنے شوہر کے پہلو سے اٹھتی ہوئی
نیم تاریک زینے سے تھم تھم اترتی ہوئی

ایک بے انت
لمبی مسافت پہ پھیلی ہوئی راہداری کے پرلے سرے پر وہ کس سے ملے گی

اس سے کہہ دو دریچے کے پردے گرا دے
کہ کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی گرد ہی گرد ہے

مگر طاق بھی اپنی نم خوردگی میں بڑا زہر ہے
اس سے کہہ دو کہ وہ اپنے دکھتے ہوئے بازوؤں کو یوں ہی تہ رکھے