EN हिंदी
اس پار | شیح شیری
us par

نظم

اس پار

ریاض لطیف

;

چلے آئیے
زبانوں کی سرحد کے اس پار

جہاں بس خموشی کا دریا
مچلتا ہے اپنے میں تنہا

خود اپنے عدم ہی میں زندہ
زبانوں کی سرحد کے اس پار

کسی کی بھی آمد نہیں ہے
بس اک جال پیہم حدوں کا

مگر کوئی سرحد نہیں ہے