اک خواب میں آنکھیں ملتے ہوئے
اک آس کی چھایا ڈھلتے ہوئے
اک خوف کے من میں پلتے ہوئے
اب موڑ یہ کیسا آیا ہے
سنسار پہ رنگ سا چھایا ہے
آکاش کے رم جھم تاروں نے
سو روپ دکھاتی بہاروں نے
ساگر کے پلٹتے دھاروں نے
اک بات کہی اک مان دیا
تن من کو انوکھا گیان دیا
اک جوت جگائی جیون میں
اک رنگ اتارا درپن میں
اک خواب کھلایا ہے من میں
اس خواب میں جینا مرنا ہے
اب کام یہی بس کرنا ہے
نظم
اس خواب میں
مبین مرزا