وہی غنچوں کی شادابی وہی پھولوں کی نکہت ہے
وہی سیر گلستاں ہے وہی جوش مسرت ہے
وہی موج تبسم ہے وہی انداز فطرت ہے
وہی دام تخیل ہے وہی رنگ حقیقت ہے
وہی صبح مسا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
بڑی رنگیں فضا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
وہی مخمور راتیں اب بھی تصویر تخیل ہیں
وہی دل چسپ باتیں اب بھی تصویر تخیل ہیں
وہی پر کیف گھاتیں اب بھی تصویر تخیل ہیں
ستاروں کی براتیں اب بھی تصویر تخیل ہیں
وہی موج صبا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
بڑی رنگیں فضا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
گھٹائیں اب بھی اٹھتی ہیں تلاطم اب بھی ہوتا ہے
شگوفے اب بھی کھلتے ہیں تبسم اب بھی ہوتا ہے
عنادل اب بھی گاتے ہیں ترنم اب بھی ہوتا ہے
جوانی اب بھی ہنستی ہے تکلم اب بھی ہوتا ہے
ہر اک شے خوش نما ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
بڑی رنگیں فضا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
تمہاری یاد ایسے میں ستاتی ہے مجھے اب بھی
شب تنہائی میں پہروں رلاتی ہے مجھے اب بھی
صبا کے دوش پر آ کر جگاتی ہے مجھے اب بھی
حواس و ہوش سے بے خود بناتی ہے مجھے اب بھی
تمنائے وفا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
بڑی رنگیں فضا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
جنوں ساماں نظاروں کے تقاضے اب بھی ہوتے ہیں
تمنا اب بھی ہوتی ہے ارادے اب بھی ہوتے ہیں
زمانہ اب بھی ہنستا ہے تماشے اب بھی ہوتے ہیں
نگاہیں اب بھی اٹھتی ہیں اشارے اب بھی ہوتے ہیں
خوشی دل آشنا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
بڑی رنگیں فضا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
رہے گا یوں لبوں پر شکوۂ جور خزاں کب تک
ستائے گا بھلا نازک دلوں کو یہ جہاں کب تک
مسلسل آزمائش اور پیہم امتحاں کب تک
میں تم سے دور رہ کر جی سکوں گا یوں یہاں کب تک
تمنا کیا سے کیا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
بڑی رنگیں فضا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
مجھے دن رات رہتی ہے تمہاری جستجو اب بھی
تصور میں کیا کرتا ہوں تم سے گفتگو اب بھی
خدا شاہد ہے میرے دل میں ہے یہ آرزو اب بھی
کہ تم آ جاؤ چشم منتظر کے روبرو اب بھی
یہ خواہش بارہا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
بڑی رنگیں فضا ہوتی ہے لیکن تم نہیں ہوتیں
نظم
اس کے نام
شوکت پردیسی