وہ منتظر تھی
ہزار صدیوں سے منتظر تھی
میں ایک ذرہ
ہوا کے رتھ پر سوار، ہنستا ہوا
خلاؤں میں گنگناتا
ہزارہا سال کے سبھی حادثوں کی گرمی رگوں میں بھر کر
گھنے درختوں کے نرم سایوں میں آ کے اترا
وہ منتظر تھی
مجھے تھکن سے نڈھال دیکھا
تو کھلکھلا کر لپٹ گئی مجھ سے بے تحاشا
مرے بدن کو وہ رنگ بخشا
کہ خوشبوؤں میں نہائیں پگڈنڈیاں سہانی
وہ نور مجھ کو عطا کیا
جگمگا گئیں جنگلوں کی تنہائیاں پرانی
ہزار صدیاں گزر چکی ہیں
میں آج خود کو ڈبو چکا ہوں حیات کے
خیر و شر میں یکسر
مگر وہ اب بھی پکارتی ہے مرے لہو کو
مرے جنم کی وہ منتظر ہے
ہزار صدیوں سے منتظر ہے
نظم
اس کا دکھ
کمار پاشی