EN हिंदी
عمر کا آخری دن | شیح شیری
umr ka aaKHiri din

نظم

عمر کا آخری دن

احمد ظفر

;

یہاں میرے اندر درختوں کی کتنی قطاریں سلگتی رہیں گی
وہاں تیرے اندر تڑپتے ہوئے لفظ لمحے

پرندے قطاروں میں بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں
درختوں کے پیچھے کئی چاند ٹوٹے ہوئے ریزہ ریزہ

لہو میں نہائے ہوئے کتنے سورج مزاروں کے کتبے!
کہیں ڈھول کی تھاپ پر رقص مرگ مسلسل

کہیں دلدلوں میں اترتے ہوئے جسم جیسے
گنہ گار اپنے کئے کی سزا پا رہے ہیں

نہ تو اپنی پلکوں کے کالے پھریرے اٹھا کر کہیں جا رہی ہے
نہ میں کوئی پرچم اٹھائے ہوئے چل رہا ہوں

مرے پاس بیٹھا ہوا جسم مجھ سے یہ کیوں پوچھتا ہے
کسی گل کی ماہیت رنگ کیا ہے؟

ستاروں کا آہنگ کیا ہے؟
یہ خوشبو ہے یا بارش سنگ کیا ہے

یہ سب زندہ رہنے کے حیلے وسیلے عبث ہیں
ازل سے ابد تک وہی سلسلہ ہے

یہاں سے وہاں تک وہی دھند پھیلی ہوئی ہے
مگر دھند سے کیسے نکلیں یہی سوچتے سوچتے مر گئے ہم

زمیں سے شجر کا جنم زندگی کی علامت مگر موت بھی ہے
مری عمر کا آخری دن

کسی باب آتش زدہ پر کھڑا مسکرانے لگا ہے
کہیں ہجر کی ساعتیں گنتے گنتے مجھے نیند آئی ہوئی ہے

شمار ستارہ نے شاید مرے دل کی رنگیں خلیوں میں
کالے لہو کی عبارت لکھی ہے

سمندر میں ڈوبا ہوا اک مکاں جل رہا ہے