EN हिंदी
امید | شیح شیری
ummid

نظم

امید

خدیجہ خان

;

زندگی عجب ہے
پھر بھی اپنے پاس

موت کو
پھٹکنے نہیں دیتی

جب کہ ہاتھ محروم ہیں
روزگار سے

پیٹ دانے سے
اور سر آسرے سے

سخت جان زندگی
ہزار بار

مر کر بھی
زندہ رہتی ہے

امید کے اجالوں میں
اونچی اڑانوں میں

اپنے آپ سے
جھنجھتی ہوئی

کہ حقیقت میں
جسے کہتے ہیں زندگی

ہمیں بھی
حاصل ہو گئی کبھی تو

بس یہ جذبہ
نہ کبھی مرنے پائے