چاند کی نذر کیے میں نے نظر کے سجدے
حسن معصوم کے جلووں کا پرستار رہا
میں نے تاروں پہ نگاہوں کی کمندیں پھینکیں
ایک رنگین حقیقت کا طلب گار رہا
ذہن کے پردے پہ رقصاں ہے کوئی عکس جمیل
حسن کے روپ میں شاید وہ یکایک مل جائے
ہر نئے جلوے سے بے ساختہ یوں لپٹا ہوں
جیسے بچھڑا ہوا اک دوست یکایک مل جائے
میں نے الفاظ میں رومان کے نغمے ڈھالے
سعیٔ تخلیق ترنم سے سکوں مل نہ سکا
مطمئن ہو نہ سکیں میری سلگتی نظریں
حسب دل خواہ مجھے ذوق جنوں مل نہ سکا
میری آشفتہ نگاہی کا اثر چھن جائے
مجھ سے اے کاش مرا ذوق نظر چھن جائے
نظم
الجھن
نذیر مرزا برلاس