تو مرے پاس رہے میں تری الفت میں فنا
جیسے انگاروں پہ چھینٹوں سے دھواں
بنت مہتاب کو ہالے میں لیے
تو فروزاں ہو مگر ساری تپش میری ہو
پھیلے افلاک میں بے سمت سفر
ساتھ میں وقت کا رہوار لیے
جس طرف موج تمنا کہہ دے
جستجو شوق کا پتوار لیے
گفتگو ربط کے احساس سے دور
خامشی رنج مکافات سے دور
چاندنی کی کبھی سرگوشی سی
پھول کے نرم لبوں کو چومے
گرد اندیشہ کو شبنم دھو دے
قہقہے پھوٹیں تامل کے بغیر
نور ابلے کبھی فواروں میں
اور نقطے میں سمٹ آئے کبھی
تہ بہ تہ کھولے ردا ظلمت کی
اپنی بے باک نگاہوں سے منور کر دے
نقطۂ وصل یہ مٹتا ہوا دھبہ ہی سہی
ہوش بہتا ہے تو بہہ جانے دے
تو مرے پاس رہے میں تری الفت میں فنا
نظم
الفت
ابرارالحسن