ہم کہیں ساعت بے بال و پری
کھول کے دم لیتے ہیں
ریگ زاروں سے نکلتے ہیں
روانی لے کر
اور اتر جاتے ہیں
گدرائے ہوئے پانی میں
بس اسی پانی میں ہے
اپنی ہوس
اپنے چلن کا قصہ
یہ چلن
خواب گہ ہست سے ہوتا ہوا
کاشانے تلک جاتا ہے
جس کی درزوں سے دعا جھانکتی ہے
اور خلقت ہے
کہ غفلت بھرے پہروں میں ہوا مانگتی ہے

نظم
عجلت میں پشیمانی کا تذکرہ
فرخ یار