وہ ایک میں ہی نہیں ہوں
نہ جانے کتنے ہیں
جو سوچتے ہیں سمجھتے ہیں چاہتے بھی ہیں
کہ پھوٹتی ہوئی پہلی کرن سے بھی پہلے
افق پہ وقت کے چمکیں
نیا سا رنگ بھریں
جو صبح ہو
تو نسیم سحر کا ساتھ دھریں
سمیر بن کے بہیں
رنگ و بو کی دھرتی پر
گلوں سے بات کریں
ہر گلی سے کھل کھلیں
مگر یہ وقت
یہ سہما ہوا ڈرا ہوا وقت
یہ اپنے سائے سے بدکا
یہ ہانپتا ہوا وقت
کبھی ادھر کو رواں ہے کبھی ادھر کو دواں
سپیدۂ سحری کیا
سواد شام کہاں
افق پہ کچھ بھی نہیں
ہے بس اک غلیظ دھواں
نظم
افق پہ
شہاب سرمدی