آسماں پر اداس بیٹھا چاند
رات بھر تارے گنتا رہتا ہے
چاہتا ہے کے جھک کے دھرتی کی
چوم لے یہ چمکتی پیشانی
اور حسرت نکال لے دل کی
کون سمجھائے پر دیوانے کو
خواہشیں حسرتیں جو ہیں دل کی
خواہشیں حسرتیں ہی رہتی ہیں
خواہشوں پر چلا ہے بس کس کا
حسرتیں کس کو راس آئی ہیں
نظم
اداس چاند
محسن آفتاب کیلاپوری