یہ ہانڈی ابلنے لگی
یہ مٹی کی ہانڈی ابلنے لگی ہے
یہ مٹی کی دیوانی ہانڈی ابلنے لگی ہے
ہزاروں برس سے مری آتما اونگھ میں پھنس گئی تھی
جب انسان دو پتھروں کو رگڑ کر کہن سال سورج کی سرخ آتما کو بلانے لگا تھا
مگر تیز آنچ اور بہت تیز بو نے جھنجھوڑا تو اب آنکھ پھاڑے ہوئے
دم بخود ہے
ابلنے لگیں سبزیاں پھول پھل گوشت دالیں اناج
ابھی شوربے کے کھدکنے کی آواز چھائی ہوئی تھی
ابھی سانپ چھتری لگائے ہوئے بھاپ نیلے خلاؤں کی جانب رواں ہے
وہ جس کی ضیافت کی تیاریاں تھیں کہاں ہے
مری آتما جاگ کر چیختی ہے
یہ ہانڈی ابلنے لگی ہے
یہ مٹی کی ہانڈی ابلنے لگی ہے
یہ مٹی کی دیوانی ہانڈی ابلنے لگی ہے
نظم
ابال
عمیق حنفی