EN हिंदी
ٹوٹی ہوئی رسی | شیح شیری
TuTi hui rassi

نظم

ٹوٹی ہوئی رسی

عذرا عباس

;

اب وہ سفر میں ساتھ لے جانے والے
بستر بند کے کام آتی ہے

اور کبھی کبھی بچے اپنی ٹوٹی ہوئی
بے پہیوں کی گاڑی سے

اسے باندھ دیتے ہیں
بہت دن پہلے

وہ دو دلوں سے بندھی تھی
جب چیونٹیاں دکھاتی تھیں اس پر

اپنی بازی گری
منہ میں غذا دبائے

ادھر سے ادھر اٹھلاتی ہوئی
کبھی کبھی پرندے

اپنی اپنی اڑانوں سے تھک کر
اس پر بیٹھ جاتے تھے

جب یہ بھیگتی تھی
بارشوں میں

سینکتی تھی بہاروں کی دھوپ
کبھی کبھی یہ بن جاتی تھی

رنگ برنگ کے کپڑوں کی الگنی
ٹوٹی ہوئی رسی سے جڑے

دل
اب کہاں ہیں؟