میں خدا کے ہاتھوں سے گر کر ٹوٹا ہوا پیالہ ہوں
(جو اپنے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو...
ڈھونڈھتا پھرتا ہے)
کبھی کبھی (بہت کبھی کبھی)
کوئی ٹکڑا مل کر اپنی ٹوٹی ہوئی جگہ سے جوڑ بناتا ہے
تو ازلی تسکین اور ابدی سرشاری کا احساس ملتا ہے
جیسے کہ تم!
ہاں پیارے! جیسے تم ملتے ہو تو کچھ ایسا ہی لگتا ہے
جیسے میں تھوڑا مکمل ہو گیا ہوں
جیسے میں پھر سے اپنے چاک پر آ گیا ہوں
تکمیل کی اس مسافت میں
ایک سوال بوند بوند مجھ سے رستا ہے
اتنی بڑی کائنات میں
ٹوٹے ہوئے پیالے کے ٹکڑے کہاں کہاں
بکھرے پڑے ہیں
کیا خبر، کب ہم اپنے باقی ماندہ ٹکڑوں کو پا سکیں
جانے کب ہمیں ازلی تسکین مل سکے
اور جانے کب خدا کی پیاس بجھے
ہاں پیارے!
ہم خدا کے ہاتھوں سے گر کے ٹوٹے ہوئے
پیالے ہیں!!!
نظم
ٹوٹے ہوئے پیالے
انجم سلیمی