میانوالی بھی اپنی رت بدلتا ہے مگر
مرے دل کی زمینوں پر
وہی موسم خزاں کا
وہی بے شکل چہرہ آسماں کا
وہی بے آب دریا داستاں کا
وہی بے روح منظر ہیں
وہی بے رنگ تصویریں
وہی چشمے ،وہی ابلا ہوا پانی
درختوں سے
مسلسل بھاپ بن کر اٹھ رہا ہے
پگھلتی جا رہی ہیں میری راتیں
سوا نیزے پہ سورج ہے
مگر شب کی سیاہی اڑ رہی ہے میری مٹی میں
مرے اندر کی فصلیں
تیرگی کی دھوپ میں مرجھا گئی ہیں
مجھے کوئی شکست ذات کی علت بتا دے!
نظم
ٹوٹا ہوا افق
منصور آفاق