تو میرا ہے
تیرے من میں چھپے ہوئے سب دکھ میرے ہیں
تیری آنکھ کے آنسو میرے
تیرے لبوں پہ ناچنے والی یہ معصوم ہنسی بھی میری
تو میرا ہے
ہر وہ جھونکا
جس کے لمس کو
اپنے جسم پہ تو نے بھی محسوس کیا ہے
پہلے میرے ہاتھوں کو
چھو کر گزرا تھا
تیرے گھر کے دروازے پر
دستک دینے والا
ہر وہ لمحہ جس میں
تجھ کو اپنی تنہائی کا
شدت سے احساس ہوا تھا
پہلے میرے گھر آیا تھا
تو میرا ہے
تیرا ماضی بھی میرا تھا
آنے والی ہر ساعت بھی میری ہوگی
تیرے تپتے عارض کی دوپہر ہے میری
شام کی طرح گہرے گہرے یہ پلکوں سائے ہیں میرے
تیرے سیاہ بالوں کی شب سے دھوپ کی صورت
وہ صبحیں جو کل جاگیں گی
میری ہوں گی
تو میرا ہے
لیکن تیرے سپنوں میں بھی آتے ہوئے یہ ڈر لگتا ہے
مجھ سے کہیں تو پوچھ نہ بیٹھے
کیوں آئے ہو
میرا تم سے کیا ناطہ ہے
نظم
تو میرا ہے
آنس معین