تمہارے لیے سنبھال کر رکھا تھا
زمین کی کشش سے باہر ایک آسمان
ایک گھوڑے کی پیٹھ
اور ایک سڑک جس پر
دھوپ چمکیلی
بارش البیلی ہوتی ہے
ایک مصرع لکھا تھا تمہارے لیے
من کی مٹی میں دبا کر رکھی تھی
تمہارے نام کی کونپل
تمہارے لیے بچائی تھی
لہو کی لالی
رت جگے
عقیدوں کی شکستگی
آگ کی لپٹیں ایک ہاتھ میں
ایک میں آب پاک
ایک آنکھ شرمیلی
ایک آنکھ بیباک
کشتی کے تختے
اور شوق کا مواج دریا
شہد دنیا کو بانٹ دیا
بچا کر رکھا اپنا موم
تم اس کی باتی ہوتیں
ہم جلتے ساری رات
تم نے چنا
سونے کا سندور
چاندی کی چنگیری
پلنگ نقشین
پختہ چھت
پکی دیواریں
پکا گھڑا
اتھلا کنواں
پانی جیسا ٹھہر گئیں تم
ہوا کے جیسا بکھر گیا میں
نظم
تمہارے لیے
خورشید اکرم