تم کو نوبل کی ضرورت ہی نہیں ہے بابا
کوئی اعزاز کوئی تخت کوئی تاج شہی
کوئی تمغہ نہیں دنیا میں تمہارے قد کا
تم نے اس ملک کے لوگوں پہ حکومت کی ہے
تم نے خدمت نہیں کی تم نے عبادت کی ہے
کوئی مسند بھی تمہارے لئے تیار نہیں
تم کسی اور ستائش کے بھی حق دار نہیں
لیکن آتی ہے کہیں سے یہ صدائے برحق
جھلملاتی ہوئی آنکھوں کی نمی میں تم ہو
سب کے دکھ درد کے ساتھی ہو غمی میں تم ہو
سب کی خوشیوں میں ہو موجود دکھوں میں تم ہو
سب کی سانسوں میں مہکتے ہو دلوں میں تم ہو
اسی خدمت میں ہے پوشیدہ تمہارا نوبل
تم یہاں خاک نشینوں کے نمائندہ ہو
صرف بیواؤں یتیموں کے لئے کام کرو
تم تو بس لاشیں اٹھانے کے لئے زندہ ہو
نظم
تم تو بس لاشیں اٹھانے کے لئے زندہ ہو
خالد عرفان