کبھی تم نے دیکھا ہے
خوابوں سے آگے کا منظر
جہاں چاند تاروں سے روٹھی ہوئی
رات اپنے برہنہ بدن پر
سیہ راکھ مل کر
الاؤ کے چاروں طرف ناچتی ہے!
کبھی تم نے جھانکا ہے
پلکوں کے پیچھے
تھکی نیلی آنکھوں کے اندر
جہاں آسمانوں کی ساری اداسی
خلا در خلا تیرتی ہے
کبھی تم نے اک دن گزارا ہے
رستوں کے دونوں طرف ایستادہ
گھنے سبز پیڑوں کے نیچے
جہاں دھوپ اپنے لیے
راستہ ڈھونڈھتی ہے!
کبھی تم نے پوچھا ہے
چلتے ہوئے راستے میں
کسی اجنبی سے
پتا اس کے گھر کا
ہوا جس کے قدموں کے مٹتے نشاں چومتی ہے
نگر در نگر گھومتی ہے!!
نظم
تم نے اسے کہاں دیکھا ہے
نصیر احمد ناصر