تم نے لکھا ہے مرے خط مجھے واپس کر دو
ڈر گئیں حسن دل آویز کی رسوائی سے
میں نہ کہتا تھا کہ تم مجھ سے محبت نہ کرو
یوں نہ کھیلو مرے جذبات کی رعنائی سے
سب سمجھتے تھے ہمیشہ مجھے جان محفل
اب مرا حال تو پوچھو مری تنہائی سے
تم نئی بزم سجا لو گی تمہارا کیا ہے
تمہیں ڈھونڈیں گی کہاں میری سلگتی راتیں
بھول ہی جاؤ گی دو چار دنوں میں تم تو
دو دھڑکتے ہوئے بے تاب دلوں کی باتیں
میں کہاں جاؤں گا محرومیٔ دل کو لے کر
پھوٹ کر روئیں گی جس وقت بھری برساتیں
کاش کچھ پیار کا انجام تو سوچا ہوتا
چھین لی میری جوانی سے جوانی تم نے
میں نہ کہتا تھا کہ تم مجھ سے محبت نہ کرو
لاکھ سمجھایا مگر ایک نہ مانی تم نے
تم نہ مانو تو بھلا کون کہے کون سنے
پیار پوجا ہے پرستش ہے تجارت تو نہیں
سونے چاندی کے لئے عشق کو ٹھکرا دینا
کھیل ہو سکتا ہے معیار محبت تو نہیں
تم زر و سیم کی میزان میں تل سکتی ہو
پیار بکتا نہیں چاہت کا کوئی مول نہیں
اس سے پہلے کہ مرے عشق پر الزام دھرو
دیکھ لو حسن کی فطرت میں تو کچھ جھول نہیں
اپنے ہی لکھے ہوئے چند خطوں کی خاطر
مجھ سے خائف ہی نہیں خود سے بھی بیزار ہو تم
کشتیٔ حسن کی ٹوٹی ہوئی پتوار ہو تم
تم ہو خود اپنے ہی احساس کی ٹھکرائی ہوئی
اپنے انجام سے سہمی ہوئی گھبرائی ہوئی
کس لئے آج نظر آتی ہو کھوئی کھوئی
کھیلنے ہی کی تمنا تھی تو مجھ سے کہتیں
تمہیں بازار سے لا دیتا کھلونا کوئی
آج کی بات نہیں بات بہت دیر کی ہے
میں نے سمجھا تھا مری روح کی آواز ہو تم
نشۂ حسن کی اک لہر ہو مچلی ہوئی لہر
اک لجاتا ہوا شرماتا ہوا راز ہو تم
تم ہو وہ راز کہ جس راز کو ہر لمحے نے
شعر و نغمہ کی فضاؤں میں سجائے رکھا
تم ہو وہ راز کہ جس راز کی رعنائی کو
میں نے احساس کے سینے سے لگائے رکھا
وہ لجاتا ہوا شرماتا ہوا راز جسے
میں نے اپنی بھی نگاہوں سے چھپائے رکھا
جی میں آتا ہے کہ اس راز کو رسوا کر دوں
کیوں نہ ہر ناز کو انداز کو رسوا کر دوں
توڑ دوں شوخ کھنکتے ہوئے گجروں کا غرور
مست پازیب کی آواز کو رسوا کر دوں
جی میں آتا ہے کہ میں بھی تمہیں بدنام کروں
تمہیں بدنام کروں اور سر عام کرو
آخر انسان ہوں میں بھی کوئی پتھر تو نہیں
میں بھی سینے میں دھڑکتا ہوا دل رکھتا ہوں
مجھ کو بھی پیار سے خوابوں سے تمہاری ہی طرح
مجھ کو بھی اپنی جواں سال امنگیں ہیں عزیز
میری فطرت کو بھی ہے اشک و تبسم میں تمیز
میں نے سوچا ہے کہ میں بھی تمہیں بدنام کروں
لیکن افسوس کہ یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا
تم نے سمجھا نہ محبت کے اشاروں کا مزاج
تم نے دیکھی نہ دھڑکتے ہوئے جذبوں کی سرشت
میرے وجدان نے تخلیق کیا تھا جس کو
تم نے خود آپ جلایا ہے وہ خوابوں کا بہشت
تم نے جس طرح جلایا ہے رلایا ہے مجھے
آج کیوں میں بھی اسی طرح رلاؤں نہ تمہیں
دیکھ پائیں گی نہ جس رخ کو تمہاری آنکھیں
آج تصویر کا وہ رخ بھی دکھاؤں نہ تمہیں؟
کاش تم نے کبھی سوچا کبھی سمجھا ہوتا
میں نے کیا کچھ نہ کیا حسن کی عظمت کے لئے
کون سے دکھ نہ سہے کون سے طعنے نہ سنے
فکر و احساس کے شاداب گلستانوں سے
تم نے کلیاں ہی چنیں میں نے تو کانٹے بھی چنے
میں ہی بیگانہ رہا اپنی حقیقت سے مگر
تم نے حالات کے عنوان کو پہچان لیا
اپنے بہکے ہوئے جذبات کی تسکیں کے لئے
تم نے منہ زور جوانی کا کہا مان لیا
تم نے پرجوش روایات کی رو میں بہہ کر
کر دیا گردش دوراں کے حوالے مجھ کو
کون اب چاند ستاروں میں مجھے لے جائے
کون اب ذہن کی ظلمت سے نکالے مجھ کو
عشق اور حسن کو بدنام کرے کیا معنی
یہ تو وہ داغ ہے کردار کی پیشانی پر
وقت صدیوں جسے روئے تو نہیں دھو سکتا
کون پوچھے گا بھلا مجھ سے مرے دل کی مراد
کتنا گہرا ہے محبت کے تقاضوں کا تضاد
میں تو کہتا ہوں کہ تم پیار سے جھولی بھر دو
تم نے لکھا ہے مرے خط مجھے واپس کر دو
اب جو چاہو وہ کرو رحم و کرم ہو کہ ستم
اب نہیں طرز تغافل کا مرے عشق کو غم
شوق سے میری تمناؤں کی بربادی ہو
کچھ بھی ہو تم مرے احساس کی شہزادی ہو
نظم
تم نے لکھا ہے
پریم واربرٹنی