EN हिंदी
تم نہیں آئے تھے جب | شیح شیری
tum nahin aae the jab

نظم

تم نہیں آئے تھے جب

علی سردار جعفری

;

تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو موجود تھے تم
آنکھ میں نور کی اور دل میں لہو کی صورت

درد کی لو کی طرح پیار کی خوشبو کی طرح
بے وفا وعدوں کی دل داری کا انداز لیے

تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو تم آئے تھے
رات کے سینے میں مہتاب کے خنجر کی طرح

صبح کے ہاتھ میں خورشید کے ساغر کی طرح
شاخ خوں رنگ تمنا میں گل تر کی طرح

تم نہیں آؤ گے جب تب بھی تو تم آؤ گے
یاد کی طرح دھڑکتے ہوئے دل کی صورت

غم کے پیمانۂ سر شار کو چھلکاتے ہوئے
برگ ہائے لب و رخسار کو مہکاتے ہوئے

دل کے بجھتے ہوئے انگارے کو دہکاتے ہوئے
زلف در زلف بکھر جائے گا پھر رات کا رنگ

شب تنہائی میں بھی لطف ملاقات کا رنگ
روز لائے گی صبا کوئے صباحت سے پیام

روز گائے گی سحر تہنیت جشن فراق
آؤ آنے کی کریں باتیں کہ تم آئے ہو

اب تم آئے ہو تو میں کون سی شے نذر کرو
کہ مرے پاس بجز مہر و وفا کچھ بھی نہیں

ایک خوں گشتہ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں