EN हिंदी
تم کہاں ہو | شیح شیری
tum kahan ho

نظم

تم کہاں ہو

احمد آزاد

;

میری نیند اک پرندہ ہے
جو گم ہو گیا ہے

تمہاری آنکھوں میں
تمہاری آنکھیں کہاں ہیں

میرا دل
بھرا رہتا ہے

اس بادل کی طرح
جسے تلاش ہے تمہاری دھوپ کی

تمہارے حسن کا سورج کہاں ہے
اک جنگ جو میں ہوں

گھرا رہتا ہوں اپنے آپ میں
اور ایک شہزادی

جسے بلا رہا ہے یہ جنگل
اے شہزادی تم کہاں ہو