تم جو آتے ہو
تو کچھ بھی نہیں رہتا موجود
تم چلے جاتے ہو
اور بولنے لگتے ہیں تمام
ادھ کھلے پھول
سماعت پہ جمی چاپ ہوا بند مکان
گفتگو کرنے کے آسن میں رکے سب اجسام
مردہ لمحات کا اک ڈھیر پہاڑ
ابر کی قاش اٹھی موج کا ساکت اندام
برف لب پلکوں پہ ٹانکے ہوئے موتی آنسو
اور سلے کانوں میں آواز کی سوئیاں بے جان
یک بیک بولنے لگتے ہیں تمام
زندگی بننے میں ہو جاتی ہے پھر سے مصروف
وقت ہو جاتا ہے پھر خاک بہ سر بے آرام
ایک پنچھی جسے اڑتے چلے جانا ہے خدا جانے کہاں
اور میں تنکوں کے بکھرے ہوئے بستر کی طرح
منتظر لوٹ کے تم آؤ کسی روز یہاں
پھر ہوں اک بار معطل
یہ زمیں اور زماں
نظم
تم جو آتے ہو
وزیر آغا