تم اپنے خواب گھر پر چھوڑ آؤ
نہیں تو خار بن کر یہ چبھیں گے
تمہاری روح کو پیہم ڈسیں گے
مبادا یہ تمہارا منہ چڑائیں
تم ان سب آئنوں کو توڑ آؤ
تم اپنی عقل و منطق پر ہو نازاں
یہ ناخن اس جگہ کیا کام دیں گے
جہاں دل کی گرہ الجھی ہوئی ہو
تمہارے ہاتھ اپنی بے بسی پر
تمہیں ہر گام پر الزام دیں گے
کہاں ہیں وہ کتابیں وہ صحائف
کہ جن میں زخم اپنے رکھ دیے تھے
اس انساں نے جو شعلوں میں جلا تھا
اس انساں نے جو سولی پر چڑھا تھا
اس انساں نے جو مر مر کر جیا تھا
تم اپنے خواب گھر پر چھوڑ آؤ
تمہاری دھوپ سایوں میں ڈھلے گی
تمہاری رات شبنم پر چلے گی
ضمیر زہر آلودہ کے چیونٹے
نہ رینگیں گے تمہاری بے حسی میں
تمہارا تن تمہارا تن بنے گا
تمہارا دل تمہارا ساتھ دے گا
تمہیں کیا چاہیئے پھر زندگی میں
تم اپنے خواب گھر پر چھوڑ آؤ
نظم
تم اپنے خواب گھر پر چھوڑ آؤ
منیب الرحمن