EN हिंदी
تم اگر چاہو تو | شیح شیری
tum agar chaho to

نظم

تم اگر چاہو تو

امجد نجمی

;

اس سے پہلے کہ شب ماہ کے ٹھنڈے سائے
گرمیٔ صبح درخشاں سے پگھل کر رہ جائیں

اس سے پہلے کہ ستاروں پہ اجالوں کی گھٹا چھا جائے
اس سے پہلے کہ یہ شبنم کے گہر ہائے لطیف

نذر خورشید زر افشاں ہو جائیں
اس سے پہلے کہ چراغوں کے چمکتے موتی

صدف نور سحر میں کھو جائیں
اس سے پہلے کہ شب ہجر کا آزار ہو کچھ اور سوا

اس سے پہلے کہ خوشی غم سے بدل کر رہ جائے
تم اگر چاہو تو آ سکتے ہو

جاوداں زیست کے لمحوں کو بنا سکتے ہو