اس سے پہلے کہ شب ماہ کے ٹھنڈے سائے
گرمیٔ صبح درخشاں سے پگھل کر رہ جائیں
اس سے پہلے کہ ستاروں پہ اجالوں کی گھٹا چھا جائے
اس سے پہلے کہ یہ شبنم کے گہر ہائے لطیف
نذر خورشید زر افشاں ہو جائیں
اس سے پہلے کہ چراغوں کے چمکتے موتی
صدف نور سحر میں کھو جائیں
اس سے پہلے کہ شب ہجر کا آزار ہو کچھ اور سوا
اس سے پہلے کہ خوشی غم سے بدل کر رہ جائے
تم اگر چاہو تو آ سکتے ہو
جاوداں زیست کے لمحوں کو بنا سکتے ہو
نظم
تم اگر چاہو تو
امجد نجمی