EN हिंदी
طلوع آفتاب | شیح شیری
tulu-e-aftab

نظم

طلوع آفتاب

امیراورنگ آبادی

;

جو صبح نے بنسری بجائے ہوائیں کروٹ بدل رہی ہیں
وسیع دریا کی ہلکی موجیں تڑپ رہی ہیں اچھل رہی ہیں

دھلا ہوا نرم نرم سبزہ زمیں کے سینے سے اٹھ رہا ہے
ہوا کے جھونکوں سے مست ہو ہو کے ننھی شاخیں مچل رہی ہیں

ادھر جو دریا ہیں گنگناتے ادھر پرندے ہیں چہچہاتے
صدائیں بیلوں کی گھنٹیوں کی سریلے نغموں میں ڈھل رہی ہیں

پڑی ہے عالم میں ایک ہلچل چمن چمن ہو رہی ہیں دھومیں
افق کے ایوان آتشیں سے سنہری کرنیں نکل رہی ہیں

یہ کس کی آمد کا ہے اشارہ کہ نور ہر سو برس رہا ہے
یہ کس کے جلوہ کے دیکھنے کو جہان سارا ترس رہا ہے

2
اے مہر تاباں نکل کے باہر اداس غنچوں کو تو ہنسا دے

زمین بارش سے ہے فسردہ پکڑ کے شانہ ذرا ہلا دے
لگی ہے تیری ہی آس سب کو امیر ہوں یا فقیر بیکس

جو قصر شاہی کو جگمگا دے تو جھوپڑے کو جھلک دکھا دے
چمک چمک اے نگار گیتی کہ تو ہے پیغام زندگی کا

رس اپنی کرنوں کا کھینچ کر اب پلا دے اک جام زندگی کا