کبھی ہوا
اک جھونکا ہے جو
دیواروں کو پھاند کے اکثر
ہلکی سی ایک چاپ میں ڈھل کر
صحن میں پھرتا رہتا ہے
کبھی ہوا
اک سرگوشی ہے
جو کھڑکی سے لگ کر پہروں
خود سے باتیں کرتی ہے
کبھی ہوا
وہ موج صبا ہے
جس کے پہلے ہی بوسے پر
ننھی منی کلیوں کی
نندیا سے بوجھل
سوجی آنکھیں کھل جاتی ہیں
کبھی ہوا
اب کیسے بتائیں
ہوا کے روپ تو لاکھوں ہیں
پر اس کا وہ اک روپ
تجھے بھی یاد تو ہوگا
جب سناٹے
پوری پوری ٹوٹ گرے تھے
چاپ کے پاؤں
اکھڑ گئے تھے
سرگوشی پر
کتنی چیخیں جھپٹ پڑی تھیں
اور پھولوں کی آنکھوں سے
شبنم کی بوندیں
فرش زمیں پر
چاروں جانب بکھر گئی تھیں
نظم
تجھے بھی یاد تو ہوگا
وزیر آغا