یہ شہر ستم مار دیتا ہے مجھ کو
سر راہ شام و سحر کے کنارے
نظار و پریشاں میں شوریدہ سر
ازدحام کسالت میں گم
اپنے چاروں طرف اک نظر ڈالتا ہوں
تو یہ سوچتا ہوں
کہ یہ گاڑیاں ہیں
یا گاڑی نما وحشتیں رینگتی ہیں
مجھے وحشتیں ڈس رہی ہیں
تھکن سے بدن میں دراڑیں پڑیں ہیں
کوئی منزل بے نشاں تک نہیں ہے
قدم میرے بوجھل
مرے دست و پا شل
نظر ایسے پتھرا گئی ہے کہ جیسے
زمیں رک گئی ہو
سمجھ ایسے گھبرا گئی ہے کہ جیسے
خرد باختہ ہو
مگر میرے پنجے زمام ستم ہائے جاں مسلسل گڑے ہیں
میسر نہیں ہے جنہیں استراحت کا پل
فقط ایک ہی پل
مرے دست و پا شل
ضیافت ہے سڑکوں کی میرے
یہ گھٹن کی فضا اور یہ کالا دھواں
سسکیوں کی پلیٹوں میں وقت عبث ہے
زیاں ہم نفس ہے
قفس ہے سڑک ہے سڑک ہے قفس ہے
قفس میں قطاروں کی لمبی فصیلیں
فصیلوں کے خوف جنوں خیز میں اب
مسافت طوالت پکڑنے لگی یوں
سڑک بن گئی ایک دلدل
مرے دست و پا شل
خموشی مرے دل کے کونے میں سہمی ڈری
شور کے تیرا عفریت سے بھاگ کر
آ گئی تھی مگر
گوش مفلس میں بیہودگی زہر بن کر
بدن کی ملائم رگوں کو سکھانے لگی ہے
بہت جلد دل تک پہنچ جائے کی
خامشی کو دبوچے گی کھا جائے گی
اے متاع ہنر
میرے دل سے نکل
یا مری آگ میں جل
مرے دست و پا شل
بظاہر جو سیدھے نظر آ رہے ہیں
یہ سب راستے دائروں کی طرح ہیں
وجود ملامت میں پھیلے ہوئے
بے کراں فاصلوں کے نشاں ہیں
جہاں خلقت بے اماں کے لئے
روز و شب مرگ پیہم سزا وار ہونے لگے ہیں
نظم
ٹریفک
سلمان ثروت