تو ایسا کیوں نہیں کہتے
کہ یہ سپنے ہی میرے کرب کے ضامن ہیں ان کے ہی سبب سے میں
جھلستے ریگ زاروں میں برہنہ پا بھٹکتا ہوں
انہی پرچھائیوں کو جسم دینے کی تمنا مجھ سے آسائش کا ہر لمحہ
مزے کی نیند اعصابی سکوں سب چھین لیتی ہے
یہی وہ زہر ہے جس نے
مرے خوں کے نمک کو نیم کے رس میں بدل ڈالا
تو ایسا کیوں نہیں کہتے
کہ میں سپنوں کے اس ارژنگ کو
سورج کی جلتی بھٹیوں میں پھینک دوں سب کچھ جلا ڈالوں
کسی لنگر شکستہ ناؤ کی مانند دھارے پر رواں ہو جاؤں
ہر اک موج کے ہم راہ ڈوبوں اور ابھر آؤں
تو ایسا کیوں نہ کر پائے
وہ جو کچھ میرا حصہ تھا
مرا ورثہ تھا
مجھ سے چھین لیتے اور مجھے جنگل کے بے حس پیڑ کی مانند اگا دیتے
جو ہر موسم کے ہم راہ اپنا پیراہن بدلتا ہے
ہوا کے جھونکے دیتے ہیں اجازت جس طرف بڑھنے کی بڑھتا ہے
زمیں کی نرمیوں کو دیکھ کر اپنی جڑیں پیوست کرتا ہے
مگر تم یہ نہ کر پائے
مرا ورثہ نہ مجھ سے چھین پائے اور وہ پہلا شخص جس نے سب سے پہلا خواب دیکھا تھا
ابھی تک مجھ میں زندہ ہے
تو ایسا کیوں نہیں کرتے
انہی سپنوں انہی پرچھائیوں کو جسم دے ڈالو
جنہیں اک جسم دینے کی تمنا مجھ سے آسائش کا ہر لمحہ
مزے کی نیند اعصابی سکوں سب چھین لیتی ہے
نظم
تو ایسا کیوں نہیں کرتے
بشر نواز