تھوڑا تھوڑا یہ جو سہاگن رنگ اکٹھا دل میں ہوا ہے
جانے کتنے بھید نچوڑے نیند گنوائی پیاس چرائی
کون سے چور ہاتھوں سے لٹ کر آج یہ گھر آباد کیا ہے
برسوں سے سوندھی مٹی نے کیسی ہیکڑ جوت جگائی
خوشیوں کی بوچھار جو پلٹی غم کا مکھڑا دھل سا گیا ہے
ساون ماس خزانے اپجے سر سے پاؤں تلک ہریائی
کون یہاں میری چھاؤں میں مجھ سے منہ موڑے بیٹھا ہے
روپ وہی جانا پہچانا انگ میں دیسی ہی گرمائی
آج کی کھوٹی منزل اور بلے کیسا کندہن رنج اگا ہے
آس کے سیر جیون سوتوں سے پھوٹ بہی گھنگھور بدھائی
سیرابی کے اس ریلے نے لک چھپ کیسی راس رچائی
ہاتھوں بیٹھ وہ برکھا چہرہ پھول سریکھا کھل اٹھا ہے
گھپ رنگوں کے گھاٹ اترتی ریچھ کی یہ ادھلی سرسائی
دل کی اجلی بے سرو سامانی اس میں کیا کیا ٹھاٹ چھپا ہے
جیتے جی اس چہل پہل کی تہ تک کب ہوتی ہے رسائی

نظم
تیسری نظم
صلاح الدین پرویز