EN हिंदी
تیسری آنکھ | شیح شیری
tisri aankh

نظم

تیسری آنکھ

حسن عباس رضا

;

تو پھر یوں ہوا
ہم شکستہ دلوں نے سپر ڈال دی

جتنے ناوک بدست اپنے احباب
کوہ وفا پر کھڑے تھے

ہمیں ان سبھی کی جگر داریوں
بے غرض جرأتوں پر مکمل یقیں تھا

مگر جاں نثاری کے اس معرکے میں
صف ہم رہاں کو پلٹ کر جو دیکھا

تو کوئی نہیں تھا
سبھی نرغۂ دشمناں میں کھڑے تھے

ہجوم کشیدہ سراں
پا بہ زنجیر زیر نگیں تھا

سو پھر یوں ہوا
مقتلوں کی طرف جب روانہ ہوئے ہم

تو ساری جبینوں پہ ننگی خجالت
برہنہ ندامت کے قطرے جڑے تھے

ہم اندھے سرابوں کے لا منتہا سلسلوں میں کھڑے تھے
حذر ساعتوں

تھرتھراتے لبوں پر
فقط خامشی تھی

ستم تازیانوں کے قاتل پھریرے
فصیل زبان و دہن پر گڑے تھے

وہ موسم کڑے تھے
تو پھر یوں ہوا

ہم دریدہ بدن
دشنۂ قاتلاں کا ہدف بن گئے

قطرہ قطرہ ہمارا چمکتا گئے
شہر مہرباں کے در و بام پر

جگمگانے لگے
تیسری آنکھ کا نامہ بر ہم کو مژدہ سنانے لگا